Posts

Learning

Image
ہم سیکھتے کب ہیں؟ میں اگر یہ کہوں کہ انسان ایک عمر تک اپنی فطرت پر قائم رہتا ہے لیکن پھر وہ دانستہ یا نادانستہ طور پر اپنی فطرت سے ہٹنا شروع ہوجاتا ہے۔ تو کیا آپ مجھ سے اتفاق کرلیں گے؟ممکن ہے کہ آپ اتفاق کرلیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ آپ ارشاد فرمائیں کہ بھیا! ہمارے پلے تو یہ بات نہیں پڑی۔ بھلا انسان بھی اپنی فطرت ہٹ سکتا ہے؟ یہ  تو اپنی عادت نہیں چھوڑ پاتا فطرت کیسے چھوڑ دے گا؟ لیکن حقیقت کیا  ہے  یہ جاننا  آج ہمارے لئے موجودہ مسائل کے حل کے لئے نہایت ضروری ہے۔ تو آئیے ایک بچہ کی کہانی پڑھتے ہیں: یہ کہانی ہے دو بھائیوں کی۔جن کی عمریں بالترتیب ایک اور ڈیڑھ سال تھیں۔ ایک دن بڑے  بھائی نے اپنے چھوٹے بھائی کو ڈنڈی کاٹی۔ تکلیف کے مارے چھوٹا بھائی بلبلا اٹھا۔ بڑا بھائی  ڈر کے مارے جائے واردات سے فرار ہوگیا۔ گھر والے چھوٹے بچے کے پاس پہنچے اور اس کی جملہ تلاشی لی، جس سے ان پر عیاں ہوا کہ چھوٹے بچہ کے انگوٹھے پر دانتوں کے نشان ہیں۔ گھر کے دیگر افراد سے اس نوعیت کی عقلمندی محال تھی چناچہ بات بڑے بھائی پر آگئی۔ سب گھر والے مشترکہ طور پر اس  کے پاس پہنچے جو ڈرا سہما دوسرے کمرے میں بیٹھا تھ

Thanks Pakistan

Image
شکریہ پاکستان

Pakistan Day

Image
کون خواب چھین لیں گے؟ ان لوگوں کے بارے میں کیا کہا جائے گا جنہوں نے گورے کے تسلط کو قبول کرنے سے انکار کردیا تھا۔ جو تمام تر بے سرو سامانی کے باوجود پانی پت میں اتر گئے تھے۔ جنہیں علمِ آزادی بلند کرنے کی پاداش میں تختہ دار پر بلند کیا گیا۔ جن کے جسموں کو پابندِ سلاسل کیا  گیا۔ جن کی روحوں پر پہرے بٹھائے گئے۔ جن کے جنازے مالٹا کی جیل سے اٹھائے گئے۔ جن کے لئے فقط پیامِ موت ہی پیامِ آزادی ٹہرا۔  اورجنہوں نے  جدا ریاست کا خواب دیکھا۔ جنہیں اپنوں اور غیروں نے یکساں ہدفِ تنقید بنایا۔  جن کے خوابوں کو "دیوانے کا خواب" کہا گیا۔ اور جنہوں نے  خواب حقیقت کر دکھائے۔ جنہوں نے ثابت کردیا کہ معجزہ انیسویں صدی میں رونما ہوسکتے ہیں۔جن کے نزدیک چلتے رہنے کا نام  کامیابی ٹہرا۔اور پھر کامیابی ان سے ہمکنار ہوئی۔ میرا سوال ہے  ان لوگوں کے بارے میں جنہوں نے پاکستان کو اپنا وطن بنایا۔ آزادی کی تحریک میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ گھر بار کی قربانیاں دیں۔ مال و اسباب وار دئیے۔ آباء و اجداد کی قبریں  چھوڑدیں۔ مِلی مفادات پر ذاتی  مفادات قربان کر دئیے۔ اپنے تمام حسب نسب، تمام پہچانیں، اور تم

Corruption Is Not An Issue

Image
اوئے یار! بس کرو۔ کرپشن کا ڈھونگ رچانا اب بند کرو۔ تمہارا مقصد پورا ہوچکا۔ ستر سالوں میں تم نے کتنے کرپٹ سیاست دان پکڑ لئے؟ احتساب کے نام پر عوام نے ماضی میں بڑے بڑے ظلم سہے ہیں۔ صداقت اور امانت کے درس بھی اس مظلوم ملت نے بہت سنے ہیں۔ اخلاقی جواز کے غیر اخلاقی نعرے بھی اس قوم کو بڑے سنائے گئے ہیں۔ کیا کبھی کسی آمر کو اخلاقی جواز کا سبق پڑھایا گیا ہے؟ کیا سیاست میں ٹانگ اڑانے والے جرنیل کو کسی نے اخلاقیات کے مبارک کلمات سنائے ہیں؟ کیا کسی جج کو کوئی تبلیغ کر سکتا ہے کہ قانون کے بجائے اخلاقی بنیادوں پر فیصلے دیا کریں؟ ہر سیاست دان کو گندہ کرنا۔ اس کو دنیا کا سب سے بڑا چور، ڈاکو، لٹیرا اور جھوٹا بنا دینا کہ وہ اپنی ذات کے متعلق یہ سوچنے پر مجبور ہوجائے کہ: "اک میں ہی برا ہوں باقی سب لوگ اچھے۔ میں جھوٹا ہوں دنیا کے سب لوگ سچے ہیں۔" مانا کہ ہر سو میں دو تین کالی بھیڑیں ہوتی ہیں۔ لیکن یہاں تو آپ پوری دال ہی کالی دکھا رہے ہیں۔ حضور آپ نے اور آپ کے ہدایت کاروں نے قوم کے مستقبل کو داؤ پر لگا دیا ہے۔ نوجوانوں میں عدم برداشت کا یہ زہر کیسا ہے جو آپ نے بھرا ہے؟ ک

Success

Image
کامیابی کے سفر میں کون کتنا حصہ دار ہے؟ ایک مِتھیکل جملہ ہے کہ کامیابی میں محنت کا سب سے بڑا ہاتھ ہے۔ اگر کامیابی کے موضوعات پر لکھنے والے مصنفین اور محققین کو پڑھا جائے اور ان کی آراء کا تجزیہ کیا جائے تو یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہوگی کہ حقیقی کامیابی میں محنت کا عمل دخل فقط تیس فیصد ہے۔ محنت سے زیادہ کردار ادا کرتی ہے ایمانداری۔ ایمانداری مسلمان ہونے کا نام نہیں بلکہ چند بنیادی اوصاف ہیں جن سے اپنی زندگی کو متصف کر لیا جائے تو بندہ ایماندار کہلاتا ہے۔ ان اوصاف کو اس طرح لکھا جا سکتا ہے: 1 کمٹمنٹ: عرفِ عام میں اسے  زبان کا پکا ہونا کہتے ہیں۔ 2 سچ: سچے ہونے کا مطلب فقط سچ بولنا نہیں بلکہ سچ کے لئے کھڑے ہونے اور سچ کو تھامے رہنے کا مطلب ہے کہ آپ سچے ہیں۔ 3 قابلِ اعتماد: آپ پر لوگ کس قدر بھروسہ کرتے ہیں(یہ ایک رخ) اور آپ لوگوں کے اعتماد پر کس قدر پورا اترتے ہیں(دوسرا رخ)۔ ذرا اپنے گریبان میں جھانکئے۔ کہیں آپ کسی کا راز یہ کہہ کر تو نہیں بتا دیتے کہ یار آپس کی بات ہے کسی کو نہیں بتانا، اس نے مجھے منع کیا تھا؟ مزے کی بات یہ ہے کہ ایمانداری بھی کامیابی کے لئے کافی نہی

Indian Extremists Murder Muslim BodyBuilder In Market

Image
پاکستان! تیرا خواب دیکھنے والے کو سلام تقسیمِ ہندوستان کے بعد سے انڈین مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کیا جا رہا ہے۔ مودی دورِ حکومت میں ظلم و ستم کی اس لہر میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ گزشتہ دنوں مسلمان پہلوان کی مظلومانہ شہادت کی خبر پڑھی۔ ایک چھوٹی سی خبر شاید چند سطروں کی لیکن آج جب ویڈیو دیکھنے کا اتفاق ہوا تو بے ساختہ دل نے پکارا: پاکستان! تیرا خواب دیکھنے والے کو سلام اف! کیا ظلم تھا۔ نہتا مسلمان اور جانوروں  سے بدتر  درندے۔ کسی نے دہشت گرد، کسی نے انتہا پسند اور کسی نے مذہبی شدت پسند کی سرخی لگا کر ان کا جرم چھپانے کی کوشش کی۔  یہ ہوتی ہے سیکولر، لبرل اور آزاد ریاست؟  یہاں مرنے کی آزادی ہے یا جینے کی؟ چند انچ کے فاصلے سے گزرنے والی گاڑیوں اور راہگیروںمیں سے کسی ایک کی جرات نہیں تھی کہ کہہ سکے: "ہم آزاد ہیں۔ ہم لبرل انڈیا کے باشندے ہیں۔ ہم سیکولر انڈیا کے رہائشی ہیں۔ ہم یہاں کسی معصوم کی ہتیا نہیں کرنے دیں گے۔ کوئی اس جرم کے لئے بھی سی آئی ڈی کو فون کرتا۔ " سب خاموش ہیں۔ لیکن  دل کرتا ہے پکار پکار کے کہوں: پاکستان! تیرا خواب دیکھنے والے کو سلام طلمت

Leadership

Image
سیاست کی طرح لیڈرشپ(قائد) کا تصور بھی ہمارے ذہنوںمیں نہایت سطحی حیثیت کا حامل ہے۔ ہم رہنما اسے سمجھتے ہیں جو سیاسی تحریکوں کی قیادت کرے، سیاسی کھیل کھیلے اور اقتدار کے ایوانوں تک پہنچ جائے۔ خود اقتدار   میں آجائے یا برسرِ اقتدار لوگوں کا تختہ الٹ دے۔ کامیاب لیڈر اسے سمجھا جاتا ہے جو زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اپنا حامی و ہمنوا بنا لےاور پھر اقتدار کے زینوں پر چڑھتا جائے۔فی زمانہ سیاست دان رہنما ہونے کا دعوی تو کرتے ہیں لیکن ان کی ذاتی زندگی میں اچھے اخلاق و کردار کی جھلک بھی نہیں ہوتی۔ حالانکہ رہنما وہی ہے جس کا قول اور فعل تضادات سے پاک ہو۔